image

تجارت حلال سود حرام

سود اور خیرات ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ خیرات بھلائی کی بنیاد ہے، جبکہ سو برائی کی بنیاد ہے۔ اسلام سے پہلے عربوں میں سود کا کاروبار عام تھا جس طرح شراب عام تھی، اسلام کیونکہ امن و سکون اور سلامتی کا نام ہے اس لئے سب سے پہلے شراب اور پھر سود کو حرام قرار دیا گیا۔ 8 ہجری میں سود کی حرمت کا جو حکم ہوا ہے سود کا مطلب ہے زیادتی۔ کیونکہ اس کے اصول ظلم و زیادتی پرمبنی ہیں ۔ سود دو طرح لیا اور دیا جاتا ہے۔ ایک تو انسان مجبور و بے بس ہو کر روزانہ کے اخراجات کے لئے قرضہ لیتا ہے جو کہ اس شرط پر دیا جاتا ہے کہ اتنے مال پر اتنا منافع ادا کیا جائے گا۔ جب مقررہ مدت میں رقم واپس نہیں ہو تی تو سود کی رقم بڑھا دی جاتی ہے ۔ اس طرح یہ رقم بڑھتے بڑھتے اصل رقم جو قرض لی ہوتی ہے اس سے بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اسلام میں اس کے خلاف واضح حکم دیا گیا ہے کہ جو مال تمہارے پاس فالتو ہے اسے غریب، لاچار اور ضرورت مند کو دے دیا جائے۔ اگر کسی کو سود کے بغیر قرض دیا جائے یا مدد کے طور پر رقم دی جائے تو وہ شخص اس رقم سے کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل کرکے اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ جبکہ سود کے چکر میں اس کی حالت اور بھی خراب ہو جاتی ہے۔ کیونکہ سود خود غرضی اور ظلم کا سودا ہے،اسی لئے سود کو حرام اور صدقہ و خیرات کو بہترین اعمال میں شمار کیا گیا ہے۔

باطل پرست کہتے ہیں کہ سود بھی تو تجارت کی ایک شکل ہے۔ اب سود اور تجارت کا فرق دیکھیں یہ دوسری قسم کا سود ہے۔ یعنی ایک شخص قرضہ لیتا ہے، کاروبار کرنے کیلئے اگر کوئی اس کو صرف مدد اور رضائے الٰہی کیلئے یا صدقہ خیرات میں سے رقم دے دے تو وہ اس سے تجارت کرکے رقم کو بڑھا سکتا ہے اور اس طرح اس کی مالی حالت بہتر سے بہتر ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس سود پر لی رقم سے اگر تجارت میں اس کو نقصان ہو جائے تو یہ اس کے لئے وبال جان بن جاتا ہے کہ اصل رقم اور سود کی رقم کہاں سے ادا کرے؟ اس طرح رقم دینے والے کو اس پر نہ تو محنت کرنی پڑتی ہے اور نہ کوئی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ بس مزے سے منافع حاصل کرتا ہے۔ بس یہی فرق ہے تجارت اور سود میں۔ اس لئے تجارت رحمت ہے، اور اس کیلئے محنت حلال کمائی کا ذریعہ ہے۔

اس ساری بحث کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ سود خور کے وقتی منافع کے مقابلہ میں اس کا اخلاقی، روحانی اور کردار کے لحاظ سے اس قدر نقصان ہو جاتا ہے کہ وہ انسانیت کے دائرہ سے نکل جاتا ہے ۔سود کا یہی نشہ انسان کو خرمست بنادیتا ہے ۔اسی لئے اس کو دیوانگی سے ملایا گیا ہے کہ اس کو کسی قسم کی کوئی تمیز نہیں رہ جاتی بس پیسہ ہی اس کا سب کچھ ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ شیطان کا ساتھی بن کر اپنی دنیا و آخرت تباہ و برباد کر لیتا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سود خور اپنی قبروں سے اٹھتے وقت سیدھے کھڑے نہ ہو سکیں گے، بلکہ خبطیوں اور دیوانوں کی طرح گرتے، لڑکھڑاتے ہوتے اٹھیں گے اور پھر سودی مال، اعمال کو بے کار کردیتا کر دیتا ہے۔(سمعان)اللہ تعالیٰ نے درگزر سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص سود کے حرام ہونے کا حکم سنے اور سودی کاروبار بند کردے تو اس کا پچھلا سود معاف ہو جائے گا۔ لیکن جو باز نہ آیا تو وہ ہمیشہ دوزخ میں جلے گا۔


اس آیت میں ایک ایسی صداقت بتائی گئی ہے جو انسان کو پست یا بلند کرتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ سود انسان کو خود غرضی، بخل، تنگ دلی اور سنگدلی کی طرف لے جاتا ہے۔ آج کل سود کا دور ہے اور معاشیات یعنی کاروبار زندگی میں سود کو ریڑھ کی ہڈی نہیں بلکہ ہڈی میں پیدا ہونے والا ایک کیڑا ہے جو اس کو آہستہ آہستہ کمزور کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جیسے مسلمان امیر ترین قوم ہونے کے باوجود غریب ہیں، کیونکہ اس کے تمام معدنی وسائل کی آمدنی یورپی اور امریکی بینکوں میں چلی جاتی ہے جہاں سے وہ معمولی منافع یعنی سود صرف پندرہ فیصد دیتے ہیں اور خود اس رقم سے انواع و اقسام کی مشینری تیار کرکے ہمارے ہی ہاتھ ہزاروں گنا منافع سے بیچتے ہیں۔مسلمان کا سرمایہ کاری کا یہ کس قدر غلط طریقہ ہے اس کو اگر اسلامی اصولوں اور قرآنی قوانین کے مطابق تجارت میں اور اپنے غریب اسلامی ممالک کی امداد میں لگایا جاتا تو آج مسلمانوں کی دولت پر غیر مسلم عیش نہ کر رہے ہوئے اور دوسری طرف اسلامی ممالک اپنی ضروریات کے لئے غیر مسلموں سے سود پر قرض نہ لے رہے ہوتے۔ یہ سود کا چکر بھی مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست سازش ہے اور اس سازش کو بڑی ہی آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر مسلمان خود اس کے لئے تیار ہوجائیں تو یہ کوئی مشکل کام نہیں۔


علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

سود کی لعنت سے مسلمان کو آزادی حاصل کرنا مشکل کام نہیں۔ قانون تو ہمارے پاس موجود ہے، صرف اتحاد اسلامی اور تبلیغ دین کی ضرورت ہے۔ کیونکہ تبلیغ دین کے بڑے اچھے نتائج ہوتے ہیں اور پھر اسی وجہ سے مسلمانوں کو ’’خیرالامم‘‘ کہا گیا ہے۔ مسلمان میں بڑی طاقت ہے پہلے اتحاد چائیے علامہ اقبال کہتے ہیں۔

آج کا مسلمان صرف باتیں بناتا ہے اور کشکول لے کر قرض کے لئے در در پھر رہا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں جن کو ہم ٹھیک طرح استعمال نہیں کر پاتے۔ ہمارے باپ دادا ہم سے بالکل مختلف تھے ان کی خودداری نے ان کو کبھی اجازت نہ دی تھی کہ کسی کے آگے سوال کریں۔ علامہ اقبال ان کی شان کو یوں بیان کرتے ہیں۔

گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے

کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

غرض سود کی سب سے بڑی زحمت یہ ہے کہ یہ امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بناتا ہے اور اس سے بھی بڑی پریشانی یہ ہے کہ ہم مسلمان ہو کر سود لے رہے ہیں اور دے رہے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کو سود حرام ہے اور جب یہ معلوم ہو جائے تو پھر سودا فوراً بند کردینا چائیے ورنہ پھر یہی حکم ہے کو سودی کاروبار کرنے والے جہنم میں ڈالے جائیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہاں ہی رہیں گے۔

میری ہر مسلمان فرد، جماعت، ملت، ملک اور پوری اسلامی دنیا سے پرزور اپیل ہے کہ سودی کاروبار کے خلاف جہاد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ کیونکہ سودی کاروبار ہمیں غریب سے غریب ترین درجہ پر پہنچا رہا ہے اور موت کے بعد جہنم میں جانے کا سبب بنے گا اور یہ اللہ کا فرمان ہے ضرور پورا ہوگا۔ سود کے بارے میں حدیث ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے لعنت کی سود لینے والے پر، سود دینے والے پر اور اس کے گواہوں پر اور اس کے لکھنے والے پر۔(ترمذی)

یہ تحریر اس ویب سائٹ پر نشر کی گی تھی